EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ان سے بھی پوچھئے کبھی اپنی زمیں کا کرب
جو ساحلوں کو چھوڑ کے دریا میں آ گئے

احمد عظیم




دیوار کہن کے زیر سایہ
بالو کے محل کی داستاں ہے

احمد عظیم آبادی




آج مجھے اپنی آنکھوں سے اس کے قرب کی خوشبو آئی
میری نظر سے اس نے شاید اپنے آپ کو دیکھا ہوگا

احمد فقیہ




اہل خرد اسے نہ سمجھ پائیں گے فقیہؔ
کچھ مسئلے ہیں ماورا فتح و شکست سے

احمد فقیہ




وہ جاتا رہا اور میں کچھ بول نہ پایا
چڑیوں نے مگر شور سا دیوار پہ کھینچا

احمد فقیہ




یوں درد نے امید کے لڑ سے مجھے باندھا
دریاؤں کو جس طرح کنارا کرے کوئی

احمد فقیہ




آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا

احمد فراز