وقت کے ہر اک نقش کا معنی اتنا بدلا بدلا ہوگا
میرے وہم و گمان میں کب تھا عشق کا منظر ایسا ہوگا
آج مجھے اپنی آنکھوں سے اس کے قرب کی خوشبو آئی
میری نظر سے اس نے شاید اپنے آپ کو دیکھا ہوگا
لمس کے اس کورے تالاب میں چاند کا پہلا عکس تمہی ہو
کیسے نور جہانی سر میں کس کس سے وہ کہتا ہوگا
صبح سنہری کیوں ہے اتنی شام میں اتنی لالی کیوں ہے
وقت نے شاید تیری آنکھ کی شبنم سے منہ دھویا ہوگا
آج میں آئینے میں اپنی صورت تک پہچان نہ پایا
سوچ رہا ہوں مجھ سے زیادہ کون اس شہر میں تنہا ہوگا
چھوڑ فقیہؔ یہ ہونی کا سر انہونی کی تان لگاؤ
ہونی میں ہے کوئی ہنر کیا ہونی کو تو ہونا ہوگا
غزل
وقت کے ہر اک نقش کا معنی اتنا بدلا بدلا ہوگا
احمد فقیہ