میں کیا ہوں مجھے تم نے جو آزار پہ کھینچا
دنیا نے مسیحاؤں کو بھی دار پہ کھینچا
زندوں کا تو مسکن بھی یہاں قبر نما ہے
مردوں کو مگر درجۂ اوتار پہ کھینچا
وہ جاتا رہا اور میں کچھ بول نہ پایا
چڑیوں نے مگر شور سا دیوار پہ کھینچا
کچھ بھی نہ بچا شہر میں جز رونے کی رت کے
ہر شعلۂ آواز کو ملہار پہ کھینچا
یوسف کبھی نیلام ہوا کرتا تھا لیکن
یوسف کو بھی اس شہر نے ہے دار پہ کھینچا
پھوٹے ہیں میرے دل میں پھر انکار کے سوتے
پھر دل نے مجھے حالت دشوار پہ کھینچا
ہر شے کی حقیقت میں اتر جائیں اب آنکھیں
ظلمت نے مجھے دیدۂ بیدار پہ کھینچا
دکھ عالم انسان کے تھے جو وہ چھپائے
خط چاند کو سر کرنے کا اخبار پہ کھینچا
تم نے تو فقیہؔ اپنی انا کس کے مجھے بھی
پیکاں کی طرح حالت پیکار پہ کھینچا
غزل
میں کیا ہوں مجھے تم نے جو آزار پہ کھینچا
احمد فقیہ