اب سوچئے تو دام تمنا میں آ گئے
دیوار و در کو چھوڑ کے صحرا میں آ گئے
تصویر تھے جو اولیں سرشاریوں میں لوگ
وہ زخم بن کے چشم تمنا میں آ گئے
ان سے بھی پوچھئے کبھی اپنی زمیں کا کرب
جو ساحلوں کو چھوڑ کے دریا میں آ گئے
وحشت نے یوں تو خوب دیا ہر قدم پہ ساتھ
لیکن ترے فریب دل آرا میں آ گئے
اس انجمن میں انجم و زہرہ بھی تھے مگر
ہم شب گزیدہ سحر ثریا میں آ گئے
غزل
اب سوچئے تو دام تمنا میں آ گئے
احمد عظیم