اس پار تو خیر آسماں ہے
اس پار اگر دھواں دھواں ہے
اندھا ہے غریب خوش گماں ہے
اور سامنے کھائی ہے کنواں ہے
دیوار کہن کے زیر سایہ
بالو کے محل کی داستاں ہے
جلتی ہوئی ریت کا سہارا
جلتی ہوئی ریت بھی کہاں ہے
پتھر کی لکیر کے علاوہ
مٹی کا دیا بھی درمیاں ہے
ہر شہر کے زیر پردہ جنگل
احمدؔ یہ مقام امتحاں ہے
غزل
اس پار تو خیر آسماں ہے
احمد عظیم آبادی