چارہ گروں نے باندھ دیا مجھ کو بخت سے
چھاؤں ملی نہ مجھ کو دعا کے درخت سے
بیٹھا تھا میں حصار فلک میں زمین پر
دشمن نے فتح کھینچ لی میری شکست سے
میں بھی تو تھا فریفتہ خود اپنے آپ پر
شکوہ کروں میں کیا دل نرگس پرست سے
گریہ کی سلطنت مجھے دے گی شکست کیا
چھینی ہے میں نے زندگی پانی کے تخت سے
حرف دعا پہ گوش بر آواز ہو وہ کیوں
دل سے کلام ہوتا ہے مستوں کے مست سے
حمد و ثنا سخن کا نہیں دل کا ہے ریاض
کیسے ثنا کروں میں دل لخت لخت سے
اہل خرد اسے نہ سمجھ پائیں گے فقیہؔ
کچھ مسئلے ہیں ماورا فتح و شکست سے
غزل
چارہ گروں نے باندھ دیا مجھ کو بخت سے
احمد فقیہ