صدیوں کے اندھیرے میں اتارا کرے کوئی
سورج کو کسی روز ہمارا کرے کوئی
اک خوف سا بس گھومتا رہتا ہے سروں میں
دنیا کا مرے گھر سے نظارہ کرے کوئی
رنگوں کا تصور بھی اڑا آنکھ سے اب تو
اس شہر میں اب کیسے گزارا کرے کوئی
یوں درد نے امید کے لڑ سے مجھے باندھا
دریاؤں کو جس طرح کنارا کرے کوئی
ایندھن سے ہوا جن کے سفر چاند کا ممکن
ان کے بھی تو چولھے کو سنوارا کرے کوئی
راتوں کی حکومت میں مرے خواب کا تارا
جینے کے لیے جیسے اشارا کرے کوئی
یہ آج بھی اپنا ہے فقیہؔ اس کا بھی سوچو
کس تک یونہی یادوں کو سہارا کرے کوئی
غزل
صدیوں کے اندھیرے میں اتارا کرے کوئی
احمد فقیہ