ذکر میرا ہی وہ کرتا تھا صریحاً لیکن
میں نے پوچھا تو کہا خیر یہ مذکور نہ تھا
خواجہ میر دردؔ
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے!
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
خواجہ میر دردؔ
آئیں گے وقت خزاں چھوڑ دے آئی ہے بہار
لے لے صیاد قسم رکھ دے گلستاں سر پر
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
آیا ہے مرے دل کا غبار آنسوؤں کے ساتھ
لو اب تو ہوئی مالک خشکی و تری آنکھ
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
اے بتو در پردہ تم سے زاہدوں کو بھی ہے عشق
صورت تسبیح پنہاں رکھتے ہیں زنار کو
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
اپنے کوچے میں مجھے رونے تو دے اے رشک گل
باغباں پانی ہمیشہ دیتے ہیں گلزار کو
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
بال و پر بھی گئے بہار کے ساتھ
اب توقع نہیں رہائی کی
خواجہ محمد وزیر لکھنوی

