EN हिंदी
قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا | شیح شیری
qatl-e-ashiq kisi mashuq se kuchh dur na tha

غزل

قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا

خواجہ میر دردؔ

;

قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
پر ترے عہد سے آگے تو یہ دستور نہ تھا

رات مجلس میں ترے حسن کے شعلے کے حضور
شمع کے منہ پہ جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا

ذکر میرا ہی وہ کرتا تھا صریحاً لیکن
میں نے پوچھا تو کہا خیر یہ مذکور نہ تھا

باوجودے کہ پر و بال نہ تھے آدم کے
وہاں پہنچا کہ فرشتے کا بھی مقدور نہ تھا

پرورش غم کی ترے یاں تئیں تو کی دیکھا
کوئی بھی داغ تھا سینے میں کہ ناسور نہ تھا

محتسب آج تو مے خانے میں تیرے ہاتھوں
دل نہ تھا کوئی کہ شیشے کی طرح چور نہ تھا

دردؔ کے ملنے سے اے یار برا کیوں مانا
اس کو کچھ اور سوا دید کے منظور نہ تھا