برسوں گل خورشید و گل ماہ کو دیکھا
تازہ کوئی دکھلائے ہمیں چرخ کہن پھول
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
بے تیرے مجھے دید کا کچھ شوق نہیں ہے
تو پردہ نشیں ہے تو نگہ گوشہ نشیں ہے
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
بت بھی نہ بھولیں یاد خدا کی بھی کیجیے
پڑھیے نماز کر کے وضو آب گنگ سے
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
چھان ڈالا تمام کعبہ و دیر
اے ہمارے خدا کہاں تو ہے
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
چپ رہ کے گفتگو ہی سے پڑتا ہے تفرقہ
ہوتے ہیں دونو ہونٹ جدا اک صدا کے ساتھ
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
داغ اس پہ کہاں تھے یہ گلی ہو کے پھرا ہے
بھیجا تھا جسے یہ وہ کبوتر تو نہیں ہے
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
دیکھ پچھتائے گا او بت مرے ترسانے سے
اٹھ کے کعبے کو چلا جاؤں گا بت خانے سے
خواجہ محمد وزیر لکھنوی

