EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہے سایہ چاندنی اور چاند مکھڑا
دوپٹا آسمان آسماں ہے

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




ہجر میں اک ماہ کے آنسو ہمارے گر پڑے
آسماں ٹوٹا شب فرقت ستارے گر پڑے

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




ہو رہائی ضعف کے تاثیر سے
نکلیں ہم مثل صدا زنجیر سے

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




ہوئی گر صلح بھی تو بھی رہی جنگ
ملا جب دل تو آنکھ اس سے لڑا کی

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




اس خجالت نے ابد تک مجھے سونے نہ دیا
ہجر میں لگ گئی تھی ایک گھڑی میری آنکھ

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




اسی خاطر تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر

خواجہ محمد وزیر لکھنوی




جب خفا ہوتا ہے تو یوں دل کو سمجھاتا ہوں میں
آج ہے نامہرباں کل مہرباں ہو جائے گا

خواجہ محمد وزیر لکھنوی