ہے سایہ چاندنی اور چاند مکھڑا
دوپٹا آسمان آسماں ہے
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
ہجر میں اک ماہ کے آنسو ہمارے گر پڑے
آسماں ٹوٹا شب فرقت ستارے گر پڑے
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
ہو رہائی ضعف کے تاثیر سے
نکلیں ہم مثل صدا زنجیر سے
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
ہوئی گر صلح بھی تو بھی رہی جنگ
ملا جب دل تو آنکھ اس سے لڑا کی
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
اس خجالت نے ابد تک مجھے سونے نہ دیا
ہجر میں لگ گئی تھی ایک گھڑی میری آنکھ
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
اسی خاطر تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر
خواجہ محمد وزیر لکھنوی
جب خفا ہوتا ہے تو یوں دل کو سمجھاتا ہوں میں
آج ہے نامہرباں کل مہرباں ہو جائے گا
خواجہ محمد وزیر لکھنوی

