کوئی سوال نہ کر اور کوئی جواب نہ پوچھ
تو مجھ سے عہد گذشتہ کا اب حساب نہ پوچھ
سفینے کتنے ہوئے اس میں غرق آب نہ پوچھ
تو میرے دل کے سمندر کا اضطراب نہ پوچھ
میں کب سے نیند کا مارا ہوا ہوں اور کب سے
یہ میری جاگتی آنکھیں ہیں محو خواب نہ پوچھ
سفر میں دھوپ کی شدت نے بھی ستایا مگر
فریب دیتے رہے کس قدر سراب نہ پوچھ
کبھی عروج پہ تھا خود پہ اعتماد مرا
غروب کیسے ہوا ہے یہ آفتاب نہ پوچھ
غزل
کوئی سوال نہ کر اور کوئی جواب نہ پوچھ
خوشبیر سنگھ شادؔ