موجد جو نور کا ہے وہ میرا چراغ ہے
پروانہ ہوں میں انجمن کائنات کا
آغا حجو شرف
نہیں کرتے وہ باتیں عالم رویا میں بھی ہم سے
خوشی کے خواب بھی دیکھیں تو بے تعبیر ہوتے ہیں
آغا حجو شرف
قریب مرگ ہوں للہ آئینہ رکھ دو
گلے سے میرے لپٹ جاؤ پھر نکھر لینا
آغا حجو شرف
شاخ گل جھوم کے گل زار میں سیدھی جو ہوئی
پھر گیا آنکھ میں نقشہ تری انگڑائی کا
آغا حجو شرف
تیز کب تک ہوگی کب تک باڑھ رکھی جائے گی
اب تو اے قاتل تری شمشیر آدھی رہ گئی
آغا حجو شرف
تو نہیں ملتی تو ہم بھی تجھ کو ملنے کے نہیں
تفرقہ آپس میں اے عمر رواں اچھا نہیں
آغا حجو شرف
ایک دھندلا سا تصور ہے کہ دل بھی تھا یہاں
اب تو سینے میں فقط اک ٹیس سی پاتا ہوں میں
آغا حشر کاشمیری