یہ کھلے کھلے سے گیسو انہیں لاکھ تو سنوارے
مرے ہاتھ سے سنورتے تو کچھ اور بات ہوتی
آغا حشر کاشمیری
دنیا کے جو مزے ہیں ہرگز وہ کم نہ ہوں گے
چرچے یوں ہی رہیں گے افسوس ہم نہ ہوں گے
آغا محمد تقی خان ترقی
ابرو نہ سنوارا کرو کٹ جائے گی انگلی
نادان ہو تلوار سے کھیلا نہیں کرتے
آغا شاعر قزلباش
بڑے سیدھے سادھے بڑے بھولے بھالے
کوئی دیکھے اس وقت چہرا تمہارا
آغا شاعر قزلباش
ہمیں ہیں موجب باب فصاحت حضرت شاعرؔ
زمانہ سیکھتا ہے ہم سے ہم وہ دلی والے ہیں
آغا شاعر قزلباش
اک بات کہیں تم سے خفا تو نہیں ہو گے
پہلو میں ہمارے دل مضطر نہیں ملتا
آغا شاعر قزلباش
اس لئے کہتے تھے دیکھا منہ لگانے کا مزہ
آئینہ اب آپ کا مد مقابل ہو گیا
آغا شاعر قزلباش