EN हिंदी
کبھی جو راستہ ہموار کرنے لگتا ہوں | شیح شیری
kabhi jo rasta hamwar karne lagta hun

غزل

کبھی جو راستہ ہموار کرنے لگتا ہوں

آفتاب حسین

;

کبھی جو راستہ ہموار کرنے لگتا ہوں
کچھ اور بھی اسے دشوار کرنے لگتا ہوں

مرے وجود کے اندر بھڑکنے لگتا ہے
جب اس چراغ کا انکار کرنے لگتا ہوں

نظر میں لاتا ہوں اس چشم نیم باز کو میں
اور اپنے آپ کو بیمار کرنے لگتا ہوں

جہاں بھی کوئی ذرا ہنس کے بات کرتا ہے
میں اپنے زخم نمودار کرنے لگتا ہوں

وہ شور ہوتا ہے خوابوں میں آفتابؔ حسینؔ
کہ خود کو نیند سے بیدار کرنے لگتا ہوں