کبھی جو راستہ ہموار کرنے لگتا ہوں
کچھ اور بھی اسے دشوار کرنے لگتا ہوں
مرے وجود کے اندر بھڑکنے لگتا ہے
جب اس چراغ کا انکار کرنے لگتا ہوں
نظر میں لاتا ہوں اس چشم نیم باز کو میں
اور اپنے آپ کو بیمار کرنے لگتا ہوں
جہاں بھی کوئی ذرا ہنس کے بات کرتا ہے
میں اپنے زخم نمودار کرنے لگتا ہوں
وہ شور ہوتا ہے خوابوں میں آفتابؔ حسینؔ
کہ خود کو نیند سے بیدار کرنے لگتا ہوں
غزل
کبھی جو راستہ ہموار کرنے لگتا ہوں
آفتاب حسین