ذرا سی دیر کو چمکا تھا وہ ستارہ کہیں
ٹھہر گیا ہے نظر میں وہی نظارہ کہیں
کہیں کو کھینچ رہی ہے کشش زمانے کی
بلا رہا ہے تری آنکھ کا اشارہ کہیں
یہ لہر بہر جو ملتی ہے ہر طرف دل میں
بدل گیا ہی نہ ہو زندگی کا دھارا کہیں
یہ سوچ کر بھی تو اس سے نباہ ہو نہ سکا
کسی سے ہو بھی سکا ہے مرا گزارہ کہیں
رواں دواں رہو ہر چند آفتاب حسینؔ
دکھائی دیتا نہیں دور تک کنارہ کہیں
غزل
ذرا سی دیر کو چمکا تھا وہ ستارہ کہیں
آفتاب حسین