اس اندھیرے میں جو تھوڑی روشنی موجود ہے
دل میں اس کی یاد شاید آج بھی موجود ہے
وقت کی وحشی ہوا کیا کیا اڑا کر لے گئی
یہ بھی کیا کم ہے کہ کچھ اس کی کمی موجود ہے
کون جانے آنے والے پل میں یہ بھی ہو نہ ہو
دھوپ کے ہم راہ یہ جو چھانو سی موجود ہے
غزل
اس اندھیرے میں جو تھوڑی روشنی موجود ہے
آفتاب حسین