EN हिंदी
کانٹا سا جو چبھا تھا وہ لو دے گیا ہے کیا | شیح شیری
kanTa sa jo chubha tha wo lau de gaya hai kya

غزل

کانٹا سا جو چبھا تھا وہ لو دے گیا ہے کیا

ادا جعفری

;

کانٹا سا جو چبھا تھا وہ لو دے گیا ہے کیا
گھلتا ہوا لہو میں یہ خورشید سا ہے کیا

پلکوں کے بیچ سارے اجالے سمٹ گئے
سایہ نہ ساتھ دے یہ وہی مرحلہ ہے کیا

میں آندھیوں کے پاس تلاش صبا میں ہوں
تم مجھ سے پوچھتے ہو مرا حوصلہ ہے کیا

ساگر ہوں اور موج کے ہر دائرے میں ہوں
ساحل پہ کوئی نقش قدم کھو گیا ہے کیا

سو سو طرح لکھا تو سہی حرف آرزو
اک حرف آرزو ہی مری انتہا ہے کیا

اک خواب دل پذیر گھنی چھاؤں کی طرح
یہ بھی نہیں تو پھر مری زنجیر پا ہے کیا

کیا پھر کسی نے قرض مروت ادا کیا
کیوں آنکھ بے سوال ہے دل پھر دکھا ہے کیا