عالم ہی اور تھا جو شناسائیوں میں تھا
جو دیپ تھا نگاہ کی پرچھائیوں میں تھا
وہ بے پناہ خوف جو تنہائیوں میں تھا
دل کی تمام انجمن آرائیوں میں تھا
اک لمحۂ فسوں نے جلایا تھا جو دیا
پھر عمر بھر خیال کی رعنائیوں میں تھا
اک خواب گوں سی دھوپ تھی زخموں کی آنچ میں
اک سائباں سا درد کی پروائیوں میں تھا
دل کو بھی اک جراحت دل نے عطا کیا
یہ حوصلہ کہ اپنے تماشائیوں میں تھا
کٹتا کہاں طویل تھا راتوں کا سلسلہ
سورج مری نگاہ کی سچائیوں میں تھا
اپنی گلی میں کیوں نہ کسی کو وہ مل سکا
جو اعتماد بادیہ پیمائیوں میں تھا
اس عہد خود سپاس کا پوچھو ہو ماجرا
مصروف آپ اپنی پذیرائیوں میں تھا
اس کے حضور شکر بھی آساں نہیں اداؔ
وہ جو قریب جاں مری تنہائیوں میں تھا
غزل
عالم ہی اور تھا جو شناسائیوں میں تھا
ادا جعفری