گلوں سی گفتگو کریں قیامتوں کے درمیاں
ہم ایسے لوگ اب ملیں حکایتوں کے درمیاں
لہولہان انگلیاں ہیں اور چپ کھڑی ہوں میں
گل و سمن کی بے پناہ چاہتوں کے درمیاں
ہتھیلیوں کی اوٹ ہی چراغ لے چلوں ابھی
ابھی سحر کا ذکر ہے روایتوں کے درمیاں
جو دل میں تھی نگاہ سی نگاہ میں کرن سی تھی
وہ داستاں الجھ گئی وضاحتوں کے درمیاں
صحیفۂ حیات میں جہاں جہاں لکھی گئی
لکھی گئی حدیث جاں جراحتوں کے درمیاں
کوئی نگر کوئی گلی شجر کی چھاؤں ہی سہی
یہ زندگی نہ کٹ سکے مسافتوں کے درمیاں
اب اس کے خال و خد کا رنگ مجھ سے پوچھنا عبث
نگہ جھپک جھپک گئی ارادتوں کے درمیاں
صبا کا ہاتھ تھام کر اداؔ نہ چل سکوگی تم
تمام عمر خواب خواب ساعتوں کے درمیاں
غزل
گلوں سی گفتگو کریں قیامتوں کے درمیاں
ادا جعفری