بعد رنجش کے گلے ملتے ہوئے رکتا ہے دل
اب مناسب ہے یہی کچھ میں بڑھوں کچھ تو بڑھے
شیخ ابراہیم ذوقؔ
عزیزو اس کو نہ گھڑیال کی صدا سمجھو
یہ عمر رفتہ کی اپنی صدائے پا سمجھو
شیخ ابراہیم ذوقؔ
اے ذوقؔ وقت نالے کے رکھ لے جگر پہ ہاتھ
ورنہ جگر کو روئے گا تو دھر کے سر پہ ہاتھ
شیخ ابراہیم ذوقؔ
اے ذوقؔ تکلف میں ہے تکلیف سراسر
آرام میں ہے وہ جو تکلف نہیں کرتا
save trouble, in formality, zauq nothing else can be
at ease he then remains he who, eschews formality
شیخ ابراہیم ذوقؔ
اے ذوقؔ دیکھ دختر رز کو نہ منہ لگا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
شیخ ابراہیم ذوقؔ
اے شمع تیری عمر طبیعی ہے ایک رات
ہنس کر گزار یا اسے رو کر گزار دے
شیخ ابراہیم ذوقؔ
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
being agitated I express the hope to die, although
in death, if solace is not found, then where shall I go?
شیخ ابراہیم ذوقؔ
ہمیں نرگس کا دستہ غیر کے ہاتھوں سے کیوں بھیجا
جو آنکھیں ہی دکھانی تھیں دکھاتے اپنی نظروں سے
شیخ ابراہیم ذوقؔ
کیا دیکھتا ہے ہاتھ مرا چھوڑ دے طبیب
یاں جان ہی بدن میں نہیں نبض کیا چلے
شیخ ابراہیم ذوقؔ