ہم نہیں وہ جو کریں خون کا دعویٰ تجھ پر
بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مکر جائیں گے
شیخ ابراہیم ذوقؔ
ہے عین وصل میں بھی مری چشم سوئے در
لپکا جو پڑ گیا ہے مجھے انتظار کا
شیخ ابراہیم ذوقؔ
گل اس نگہ کے زخم رسیدوں میں مل گیا
یہ بھی لہو لگا کے شہیدوں میں مل گیا
شیخ ابراہیم ذوقؔ
گیا شیطان مارا ایک سجدہ کے نہ کرنے میں
اگر لاکھوں برس سجدے میں سر مارا تو کیا مارا
شیخ ابراہیم ذوقؔ
ایک پتھر پوجنے کو شیخ جی کعبے گئے
ذوقؔ ہر بت قابل بوسہ ہے اس بت خانے میں
شیخ ابراہیم ذوقؔ
ایک آنسو نے ڈبویا مجھ کو ان کی بزم میں
بوند بھر پانی سے ساری آبرو پانی ہوئی
a single tear caused my fall in her company
just a drop of water drowned my dignity
شیخ ابراہیم ذوقؔ