کیا جانے اسے وہم ہے کیا میری طرف سے
جو خواب میں بھی رات کو تنہا نہیں آتا
I wonder to what misgivings she is prone
that even in my dreams she's not alone
شیخ ابراہیم ذوقؔ
ستم کو ہم کرم سمجھے جفا کو ہم وفا سمجھے
اور اس پر بھی نہ وہ سمجھے تو اس بت سے خدا سمجھے
شیخ ابراہیم ذوقؔ
شکر پردے ہی میں اس بت کو حیا نے رکھا
ورنہ ایمان گیا ہی تھا خدا نے رکھا
شیخ ابراہیم ذوقؔ
سجدے میں اس نے ہم کو آنکھیں دکھا کے مارا
کافر کی دیکھو شوخی گھر میں خدا کے مارا
شیخ ابراہیم ذوقؔ
سب کو دنیا کی ہوس خوار لیے پھرتی ہے
کون پھرتا ہے یہ مردار لیے پھرتی ہے
شیخ ابراہیم ذوقؔ
رلائے گی مری یاد ان کو مدتوں صاحب
کریں گے بزم میں محسوس جب کمی میری
شیخ ابراہیم ذوقؔ
رہتا سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوقؔ
اولاد سے تو ہے یہی دو پشت چار پشت
شیخ ابراہیم ذوقؔ
راحت کے واسطے ہے مجھے آرزوئے مرگ
اے ذوقؔ گر جو چین نہ آیا قضا کے بعد
شیخ ابراہیم ذوقؔ
باقی ہے دل میں شیخ کے حسرت گناہ کی
کالا کرے گا منہ بھی جو داڑھی سیاہ کی
شیخ ابراہیم ذوقؔ