مرا گھر تیری منزل گاہ ہو ایسے کہاں طالع
خدا جانے کدھر کا چاند آج اے ماہ رو نکلا
شیخ ابراہیم ذوقؔ
مذکور تری بزم میں کس کا نہیں آتا
پر ذکر ہمارا نہیں آتا نہیں آتا
شیخ ابراہیم ذوقؔ
مزے جو موت کے عاشق بیاں کبھو کرتے
مسیح و خضر بھی مرنے کی آرزو کرتے
شیخ ابراہیم ذوقؔ
موت نے کر دیا لاچار وگرنہ انساں
ہے وہ خودبیں کہ خدا کا بھی نہ قائل ہوتا
شیخ ابراہیم ذوقؔ
مرض عشق جسے ہو اسے کیا یاد رہے
نہ دوا یاد رہے اور نہ دعا یاد رہے
he who is stricken by love, remembers naught at all
no cure will come to mind, nor prayer will recall
شیخ ابراہیم ذوقؔ
معلوم جو ہوتا ہمیں انجام محبت
لیتے نہ کبھی بھول کے ہم نام محبت
had I known this is how love would end
even its name would not cross my lips my friend
شیخ ابراہیم ذوقؔ
معلوم جو ہوتا ہمیں انجام محبت
لیتے نہ کبھی بھول کے ہم نام محبت
شیخ ابراہیم ذوقؔ
لیتے ہیں ثمر شاخ ثمرور کو جھکا کر
جھکتے ہیں سخی وقت کرم اور زیادہ
شیخ ابراہیم ذوقؔ
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
شیخ ابراہیم ذوقؔ