کتنے مفلس ہو گئے کتنے تونگر ہو گئے
خاک میں جب مل گئے دونوں برابر ہو گئے
however many paupers passed, and wealthy went and came
when they were consigned to dust they were all the same
شیخ ابراہیم ذوقؔ
خط بڑھا کاکل بڑھے زلفیں بڑھیں گیسو بڑھے
حسن کی سرکار میں جتنے بڑھے ہندو بڑھے
شیخ ابراہیم ذوقؔ
کل جہاں سے کہ اٹھا لائے تھے احباب مجھے
لے چلا آج وہیں پھر دل بے تاب مجھے
the place from where my friends had picked me yesterday
my restless heart takes me again to that place today
شیخ ابراہیم ذوقؔ
جو کہو گے تم کہیں گے ہم بھی ہاں یوں ہی سہی
آپ کی گر یوں خوشی ہے مہرباں یوں ہی سہی
شیخ ابراہیم ذوقؔ
ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدر سخن
کون جائے ذوقؔ پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر
شیخ ابراہیم ذوقؔ
ہو عمر خضر بھی تو ہو معلوم وقت مرگ
ہم کیا رہے یہاں ابھی آئے ابھی چلے
شیخ ابراہیم ذوقؔ
حق نے تجھ کو اک زباں دی اور دیئے ہیں کان دو
اس کے یہ معنی کہے اک اور سنے انسان دو
the lord did on our face one mouth and two ears array
for to listen twich as much as we are wont to say
شیخ ابراہیم ذوقؔ
آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے
کتنا طوطے کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا
شیخ ابراہیم ذوقؔ
ہم رونے پہ آ جائیں تو دریا ہی بہا دیں
شبنم کی طرح سے ہمیں رونا نہیں آتا
شیخ ابراہیم ذوقؔ