دنیا نے کس کا راہ فنا میں دیا ہے ساتھ
تم بھی چلے چلو یوں ہی جب تک چلی چلے
شیخ ابراہیم ذوقؔ
دکھانے کو نہیں ہم مضطرب حالت ہی ایسی ہے
مثل ہے رو رہے ہو کیوں کہا صورت ہی ایسی ہے
شیخ ابراہیم ذوقؔ
دیکھ چھوٹوں کو ہے اللہ بڑائی دیتا
آسماں آنکھ کے تل میں ہے دکھائی دیتا
even to tiny creatures God greatness does provide
in the pupil of the eye skies can be espied
شیخ ابراہیم ذوقؔ
بوسہ جو رخ کا دیتے نہیں لب کا دیجئے
یہ ہے مثل کہ پھول نہیں پنکھڑی سہی
شیخ ابراہیم ذوقؔ
بے قراری کا سبب ہر کام کی امید ہے
ناامیدی ہو تو پھر آرام کی امید ہے
شیخ ابراہیم ذوقؔ
بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے
پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے
شیخ ابراہیم ذوقؔ
بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو
زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
شیخ ابراہیم ذوقؔ
بیٹھے بھرے ہوئے ہیں خم مے کی طرح ہم
پر کیا کریں کہ مہر ہے منہ پر لگی ہوئی
شیخ ابراہیم ذوقؔ
احسان نا خدا کا اٹھائے مری بلا
کشتی خدا پہ چھوڑ دوں لنگر کو توڑ دوں
شیخ ابراہیم ذوقؔ