EN हिंदी
سب کو دنیا کی ہوس خوار لیے پھرتی ہے | شیح شیری
sab ko duniya ki hawas KHwar liye phirti hai

غزل

سب کو دنیا کی ہوس خوار لیے پھرتی ہے

شیخ ابراہیم ذوقؔ

;

سب کو دنیا کی ہوس خوار لیے پھرتی ہے
کون پھرتا ہے یہ مردار لیے پھرتی ہے

گھر سے باہر نہ نکلتا کبھی اپنے خورشید
ہوس گرمیٔ بازار لیے پھرتی ہے

وہ مرے اختر طالع کی ہے واژوں گردش
کہ فلک کو بھی نگوں سار لیے پھرتی ہے

کر دیا کیا ترے ابرو نے اشارہ قاتل
کہ قضا ہاتھ میں تلوار لیے پھرتی ہے

جا کے اک بار نہ پھرنا تھا جہاں واں مجھ کو
بے قراری ہے کہ سو بار لیے پھرتی ہے