میں اکیلا ہوں یہاں میرے سوا کوئی نہیں
چل رہا ہوں اور میرا نقش پا کوئی نہیں
ذہن کے تاریک گوشوں سے اٹھی تھی اک صدا
میں نے پوچھا کون ہے اس نے کہا کوئی نہیں
دیکھ کر ہر ایک شے کا فیصلہ کرتے ہیں لوگ
آنکھ کی پتلی میں کیا ہے دیکھتا کوئی نہیں
کس کو پہچانوں کہ ہر پہچان مشکل ہو گئی
خود نما سب لوگ ہیں اور رونما کوئی نہیں
نقش حیرت بن گئی دنیا ستاروں کی طرح
سب کی سب آنکھیں کھلی ہیں جاگتا کوئی نہیں
گھر میں یہ مانوس سی خوشبو کہاں سے آ گئی
اس خرابے میں اگر آیا گیا کوئی نہیں
پیکر گل آسمانوں کے لیے بیتاب ہے
خاک کہتی ہے کہ مجھ سا دوسرا کوئی نہیں
عمر بھر کی تلخیاں دے کر وہ رخصت ہو گیا
آج کے دن کے سوا روز جزا کوئی نہیں
غزل
میں اکیلا ہوں یہاں میرے سوا کوئی نہیں
شہزاد احمد