EN हिंदी
اسی باعث زمانہ ہو گیا ہے اس کو گھر بیٹھے | شیح شیری
isi bais zamana ho gaya hai usko ghar baiThe

غزل

اسی باعث زمانہ ہو گیا ہے اس کو گھر بیٹھے

شہزاد احمد

;

اسی باعث زمانہ ہو گیا ہے اس کو گھر بیٹھے
وہ ڈرتی ہے کہیں کوئی محبت ہی نہ کر بیٹھے

ہمارا جرم یہ ہے ہم نے کیوں انصاف چاہا تھا
ہمارا فیصلہ کرنے کئی بیداد گر بیٹھے

کہاں تک خانۂ دل اب میں تیری خیر مانوں گا
ذرا سیلاب آیا اور ترے دیوار و در بیٹھے

میسر پھر نہ ہوگا چلچلاتی دھوپ میں چلنا
یہیں کے ہو رہوگے سائے میں اک پل اگر بیٹھے

بہت گھوما پھرا تو پھر بھی خالی ہے ترا کاسہ
ادھر تو دولت دل ہاتھ آئی ہم کو گھر بیٹھے

اڑا کر لے گئی دنیا ہمیں کن کن جھمیلوں میں
نہ پھر فرصت ملی ہم کو نہ پھر ہم عمر بھر بیٹھے

فضا میں گرد کے ذروں کی صورت ہم معلق ہیں
نہ اڑنے کی تمنا کی نہ فرش خاک پر بیٹھے

اڑی ہے خاک یادوں کی امیدوں کی ارادوں کی
یہ مٹی تھی کہ بجھتی راکھ پر ہم پاؤں دھر بیٹھے

پلٹ کر جب بھی دیکھا خاک کی چادر نظر آئی
نہ گرد راہ بیٹھی ہے نہ میرے ہم سفر بیٹھے