چراغ خود ہی بجھایا بجھا کے چھوڑ دیا
وہ غیر تھا اسے اپنا بنا کے چھوڑ دیا
ہزار چہرے ہیں موجود آدمی غائب
یہ کس خرابے میں دنیا نے لا کے چھوڑ دیا
میں اپنی جاں میں اسے جذب کس طرح کرتا
اسے گلے سے لگایا لگا کے چھوڑ دیا
میں جا چکا ہوں مرے واسطے اداس نہ ہو
میں وہ ہوں تو نے جسے مسکرا کے چھوڑ دیا
کسی نے یہ نہ بتایا کہ فاصلہ کیا ہے
ہر ایک نے مجھے رستہ دکھا کے چھوڑ دیا
ہمارے دل میں ہے کیا جھانک کر نہ دیکھ سکے
خود اپنی ذات سے پردہ اٹھا کے چھوڑ دیا
وہ تیرا روگ بھی ہے اور ترا علاج بھی ہے
اسی کو ڈھونڈ جسے تنگ آ کے چھوڑ دیا
وہ انجمن میں ملا بھی تو اس نے بات نہ کی
کبھی کبھی کوئی جملہ چھپا کے چھوڑ دیا
رکھوں کسی سے توقع تو کیا رکھوں شہزادؔ
خدا نے بھی تو زمیں پر گرا کے چھوڑ دیا
غزل
چراغ خود ہی بجھایا بجھا کے چھوڑ دیا
شہزاد احمد