بجائے آب مے نرگسی پلا مجھ کو
غذا کچھ اور نہ بادام کے سوا ٹھہرا
شاہ نصیر
بعد مجنوں کیوں نہ ہوں میں کار فرمائے جنوں
عشق کی سرکار سے ملبوس رسوائی ملا
شاہ نصیر
اے خال رخ یار تجھے ٹھیک بناتا
جا چھوڑ دیا حافظ قرآن سمجھ کر
شاہ نصیر
ابر نیساں کی بھی جھڑ جائے گی پل میں شیخی
دیدۂ تر کو اگر اشک فشاں کیجئے گا
شاہ نصیر
آتا ہے تو آ وعدہ فراموش وگرنہ
ہر روز کا یہ لیت و لعل جائے تو اچھا
شاہ نصیر
آمد و شد کوچے میں ہم اس کے کیوں نہ کریں مانند نفس
زندگی اپنی جانتے ہیں اس واسطے آتے جاتے ہیں
شاہ نصیر
آنکھوں سے تجھ کو یاد میں کرتا ہوں روز و شب
بے دید مجھ سے کس لیے بیگانہ ہو گیا
شاہ نصیر
آئینہ لے کے دیکھ ذرا اپنے حسن کو
آئے گی یہ بہار گلستاں خزاں میں یاد
شاہ نصیر
عشق ہی دونوں طرف جلوۂ دلدار ہوا
ورنہ اس ہیر کا رانجھے کو رجھانا کیا تھا
شاہ نصیر