EN हिंदी
شاہ نصیر شیاری | شیح شیری

شاہ نصیر شیر

94 شیر

مت پوچھ واردات شب ہجر اے نصیرؔ
میں کیا کہوں جو کار نمایان نالہ تھا

شاہ نصیر




مے کشی کا ہے یہ شوق اس کو کہ آئینے میں
کان کے جھمکے کو انگور کا خوشا سمجھا

شاہ نصیر




میں اس کی چشم کا بیمار ناتواں ہوں طبیب
جو میرے حق میں مناسب ہو وہ دوا ٹھہرا

شاہ نصیر




لے گیا دے ایک بوسہ عقل و دین و دل وہ شوخ
کیا حساب اب کیجے کچھ اپنا ہی فاضل رہ گیا

شاہ نصیر




لگائی کس بت مے نوش نے ہے تاک اس پر
سبو بہ دوش ہے ساقی جو آبلہ دل کا

شاہ نصیر




لگا نہ دل کو تو اپنے کسی سے دیکھ نصیرؔ
برا نہ مان کہ اس میں نہیں بھلا دل کا

شاہ نصیر




لگا جب عکس ابرو دیکھنے دل دار پانی میں
بہم ہر موج سے چلنے لگی تلوار پانی میں

شاہ نصیر




لب دریا پہ دیکھ آ کر تماشا آج ہولی کا
بھنور کالے کے دف باجے ہے موج اے یار پانی میں

شاہ نصیر




کیوں مے کے پینے سے کروں انکار ناصحا
زاہد نہیں ولی نہیں کچھ پارسا نہیں

شاہ نصیر