دل جلوہ گاہ صورت جانانہ ہو گیا
شیشہ یہ ایک دم میں پری خانہ ہو گیا
شب کیوں کہ سلطنت نہ کرے تاج زر سے شمع
رشک پر ہما پر پروانہ ہو گیا
کیفیتوں سے گردش چشم بتاں کی دل
شیشہ کبھی بنا کبھی پیمانہ ہو گیا
طغیانی سرشک سے اپنی بھی بعد قیس
دریا کا پاٹ دامن ویرانہ ہو گیا
زنجیر کیوں نہ اس کی قدم بوس ہو بھلا
جو کوئی تیرے عشق میں دیوانہ ہو گیا
یاں تک کیا ہے شہرۂ آفاق عشق نے
قصہ مرا بھی خلق میں افسانہ ہو گیا
کیا روئیے خرابیٔ اقلیم دل کو دیکھ
آنکھوں کے دیکھتے ہی تو کیا کیا نہ ہو گیا
ساقی کدھر پھرے ہے تو تنہا برنگ جام
تجھ بن خراب ان دنوں مے خانہ ہو گیا
آنکھوں سے تجھ کو یاد میں کرتا ہوں روز و شب
بے دید مجھ سے کس لیے بیگانہ ہو گیا
باور نہیں تو اشک مسلسل کو دیکھ لے
دست مژہ میں سبحۂ صد دانہ ہو گیا
کہتے ہیں اس کے سلسلۂ زلف میں نصیرؔ
دل بھی مرید اب صفت شانہ ہو گیا
غزل
دل جلوہ گاہ صورت جانانہ ہو گیا
شاہ نصیر