EN हिंदी
شاہ نصیر شیاری | شیح شیری

شاہ نصیر شیر

94 شیر

دیکھ تو یار بادہ کش میں نے بھی کام کیا کیا
دے کے کباب دل تجھے حق نمک ادا کیا

شاہ نصیر




دے مجھ کو بھی اس دور میں ساقی سپر جام
ہر موج ہوا کھینچے ہے شمشیر ہوا پر

شاہ نصیر




دیر و کعبہ میں تفاوت خلق کے نزدیک ہے
شاہد معنی کا ہر صورت ہے گھر دونوں طرف

شاہ نصیر




چمن میں غنچہ منہ کھولے ہے جب کچھ دل کی کہنے کو
نسیم صبح بھر رکھتی ہے باتوں میں لگا لپٹا

شاہ نصیر




چمن میں دیکھتے ہی پڑ گئی کچھ اوس غنچوں پر
ترے بستاں پہ عالم ہے عجب شبنم کے محرم کا

شاہ نصیر




غرض نہ فرقت میں کفر سے تھی نہ کام اسلام سے رہا تھا
خیال زلف بتاں ہی ہر دم ہمیں تو لیل و نہار آیا

شاہ نصیر




بوسۂ خال لب جاناں کی کیفیت نہ پوچھ
نشۂ مے سے زیادہ نشۂ افیوں ہوا

شاہ نصیر




بسان آئنہ ہم نے تو چشم وا کر لی
جدھر نگاہ کی صاف اس کو برملا دیکھا

شاہ نصیر




بنا کر من کو منکا اور رگ تن کے تئیں رشتہ
اٹھا کر سنگ سے پھر ہم نے چکناچور کی تسبیح

شاہ نصیر