جا بجا دشت میں خیمے ہیں بگولے کے کھڑے
عرس مجنوں کی ہے دھوم آج بیابان میں کیا
شاہ نصیر
اسی مضمون سے معلوم اس کی سرد مہری ہے
مجھے نامہ جو اس نے کاغذ کشمیر پر لکھا
شاہ نصیر
آ کے سلاسل اے جنوں کیوں نہ قدم لے بعد قیس
اس کا بھی ہم نے سلسلہ از سر نو بپا کیا
شاہ نصیر
اک پل میں جھڑی ابر تنک مایہ کی شیخی
دیکھا جو مرا دیدۂ پر آب نہ ٹھہرا
شاہ نصیر
اک آبلہ تھا سو بھی گیا خار غم سے پھٹ
تیری گرہ میں کیا دل اندوہ گیں رہا
شاہ نصیر
ہو گفتگو ہماری اور اب اس کی کیونکہ آہ
اس کے دہاں نہیں تو ہماری زباں نہیں
شاہ نصیر
ہوا پر ہے یہ بنیاد مسافر خانۂ ہستی
نہ ٹھہرا ہے کوئی یاں اے دل محزوں نہ ٹھہرے گا
شاہ نصیر
ہم وہ فلک ہیں اہل توکل کہ مثل ماہ
رکھتے نہیں ہیں نان شبینہ برائے صبح
شاہ نصیر
ہم ہیں اور مجنوں ازل سے خانہ پرورد جنوں
اس نے کی صحرا نوردی ہم نے گلیاں دیکھیاں
شاہ نصیر