EN हिंदी
شاہ نصیر شیاری | شیح شیری

شاہ نصیر شیر

94 شیر

سیر کی ہم نے جو کل محفل خاموشاں کی
نہ تو بیگانہ ہی بولا نہ پکارا اپنا

شاہ نصیر




متاع دل بہت ارزاں ہے کیوں نہیں لیتے
کہ ایک بوسے پہ سودا ہے اب تو آ ٹھہرا

شاہ نصیر




میرے نالے کے نہ کیوں ہو چرخ اخضر زیر پا
خطبہ خوان عشق ہے رکھتا ہے منبر زیر پا

شاہ نصیر




ملا کی دوڑ جیسے ہے مسجد تلک نصیرؔ
ہے مست کی بھی خانۂ خمار تک پہنچ

شاہ نصیر




نہ ہاتھ رکھ مرے سینے پہ دل نہیں اس میں
رکھا ہے آتش سوزاں کو داب کے گھر میں

شاہ نصیر




نہ کیوں کہ اشک مسلسل ہو رہنما دل کا
طریق عشق میں جاری ہے سلسلہ دل کا

شاہ نصیر




نہیں ہے فرصت اک دم پہ آہ اس کو نظر
حباب دیکھے ہے آنکھیں نکال کے کیسا

شاہ نصیر




نصیرؔ اب ہم کو کیا ہے قصۂ کونین سے مطلب
کہ چشم پر فسون یار کا افسانہ رکھتے ہیں

شاہ نصیر




نصیرؔ اس زلف کی یہ کج ادائی کوئی جاتی ہے
مثل مشہور ہے رسی جلی لیکن نہ بل نکلا

شاہ نصیر