کوئی یہ شیخ سے پوچھے کہ بند کر آنکھیں
مراقبے میں بتا صبح و شام کیا دیکھا
شاہ نصیر
کی ہے استاد ازل نے یہ رباعی موزوں
چار عنصر سے کھلے معنیٔ پنہاں ہم کو
شاہ نصیر
کی ہے استاد ازل نے یہ رباعی موزوں
چار عنصر کے سوا اور ہے انسان میں کیا
شاہ نصیر
خیال زلف دوتا میں نصیرؔ پیٹا کر
گیا ہے سانپ نکل تو لکیر پیٹا کر
شاہ نصیر
خیال ناف بتاں سے ہو کیوں کہ دل جاں بر
نکلتے کوئی بھنور سے نہ ڈوبتا دیکھا
شاہ نصیر
کم نہیں ہے افسر شاہی سے کچھ تاج گدا
گر نہیں باور تجھے منعم تو دونوں تول تاج
شاہ نصیر
کعبے سے غرض اس کو نہ بت خانے سے مطلب
عاشق جو ترا ہے نہ ادھر کا نہ ادھر کا
شاہ نصیر
جوں موج ہاتھ ماریے کیا بحر عشق میں
ساحل نصیرؔ دور ہے اور دم نہیں رہا
شاہ نصیر
جب کہ لے زلف تری مصحف رخ کا بوسہ
پھر یہاں فرق ہو ہندو و مسلمان میں کیا
شاہ نصیر