سر مژگاں یہ نالے اب بھی آنسو کو ترستے ہیں
یہ سچ ہے جو گرجتے ہیں وہ بادل کم برستے ہیں
شاہ نصیر
سربلندی کو یہاں دل نے نہ چاہا منعم
ورنہ یہ خیمۂ افلاک پرانا کیا تھا
شاہ نصیر
برقعہ کو الٹ مجھ سے جو کرتا ہے وہ باتیں
اب میں ہمہ تن گوش بنوں یا ہمہ تن چشم
شاہ نصیر
گلے میں تو نے وہاں موتیوں کا پہنا ہار
یہاں پہ اشک مسلسل گلے کا ہار رہا
شاہ نصیر
دود آہ جگری کام نہ آیا یارو
ورنہ روئے شب ہجر اور بھی کالا کرتا
شاہ نصیر
دن رات یہاں پتلیوں کا ناچ رہے ہے
حیرت ہے کہ تو محو تماشا نہیں ہوتا
شاہ نصیر
دل پر آبلہ لایا ہوں دکھانے تم کو
بند اے شیشہ گرو! اپنی دکاں کیجئے گا
شاہ نصیر
دلا اس کی کاکل سے رکھ جمع خاطر
پریشاں سے حاصل کب اک دام ہوگا
شاہ نصیر
دیکھو گے کہ میں کیسا پھر شور مچاتا ہوں
تم اب کے نمک میرے زخموں پہ چھڑک دیکھو
شاہ نصیر