نہ ہاتھ رکھ مرے سینے پہ دل نہیں اس میں
رکھا ہے آتش سوزاں کو داب کے گھر میں
شاہ نصیر
نہ کیوں کہ اشک مسلسل ہو رہنما دل کا
طریق عشق میں جاری ہے سلسلہ دل کا
شاہ نصیر
نہیں ہے فرصت اک دم پہ آہ اس کو نظر
حباب دیکھے ہے آنکھیں نکال کے کیسا
شاہ نصیر
نصیرؔ اب ہم کو کیا ہے قصۂ کونین سے مطلب
کہ چشم پر فسون یار کا افسانہ رکھتے ہیں
شاہ نصیر
نصیرؔ اس زلف کی یہ کج ادائی کوئی جاتی ہے
مثل مشہور ہے رسی جلی لیکن نہ بل نکلا
شاہ نصیر
پستاں کو تیرے دیکھ کے مٹ جائے پھر حباب
دریا میں تا بہ سینہ اگر تو نہائے صبح
شاہ نصیر
پوچھنے والوں کو کیا کہیے کہ دھوکے میں نہیں
کفر و اسلام حقیقت میں ہیں یکساں ہم کو
شاہ نصیر
رکھ قدم ہشیار ہو کر عشق کی منزل میں آہ
جو ہوا اس راہ میں غافل ٹھکانے لگ گیا
شاہ نصیر
ریختہ کے قصر کی بنیاد اٹھائی اے نصیرؔ
کام ہے ملک سخن میں صاحب مقدور کا
شاہ نصیر