EN हिंदी
ساغرؔ اعظمی شیاری | شیح شیری

ساغرؔ اعظمی شیر

12 شیر

بیٹھے تھے جب تو سارے پرندے تھے ساتھ ساتھ
اڑتے ہی شاخ سے کئی سمتوں میں بٹ گئے

ساغرؔ اعظمی




دیوتا میرے آنگن میں اتریں گے کب زندگی بھر یہی سوچتا رہ گیا
میرے بچوں نے تو چاند کو چھو لیا اور میں چاند کو پوجتا رہ گیا

ساغرؔ اعظمی




اتنا ناراض ہو کیوں اس نے جو پتھر پھینکا
اس کے ہاتھوں سے کبھی پھول بھی آیا ہوگا

ساغرؔ اعظمی




کشمیر کی وادی میں بے پردہ جو نکلے ہو
کیا آگ لگاؤ گے برفیلی چٹانوں میں

ساغرؔ اعظمی




کس طرح بھلائیں ہم اس شہر کے ہنگامے
ہر درد ابھی باقی ہے ہر زخم ابھی تازہ ہے

ساغرؔ اعظمی




مجھ میں اور تجھ میں ہے یہ فرق تو اب بھی قائم
تو مجھے چاہے مگر تجھ کو زمانہ چاہے

ساغرؔ اعظمی




شام ڈھلے یہ سوچ کے بیٹھے ہم اپنی تصویر کے پاس
ساری غزلیں بیٹھی ہوں گی اپنے اپنے میر کے پاس

ساغرؔ اعظمی




شہرت کی فضاؤں میں اتنا نہ اڑو ساغرؔ
پرواز نہ کھو جائے ان اونچی اڑانوں میں

ساغرؔ اعظمی




تم کیا جانو اپنے آپ سے کتنا میں شرمندہ ہوں
چھوٹ گیا ہے ساتھ تمہارا اور ابھی تک زندہ ہوں

ساغرؔ اعظمی