گلشن کو بہاروں نے اس طرح نوازا ہے
ہر شاخ کے کاندھے پر کلیوں کا جنازہ ہے
کس طرح بھلائیں ہم اس شہر کے ہنگامے
ہر درد ابھی باقی ہے ہر زخم ابھی تازہ ہے
مستی بھی امیدیں بھی حسرت بھی اداسی بھی
مجھ کو تری آنکھوں نے ہر طرح نوازا ہے
مٹی کی طرح اک دن اڑ جائے گا راہوں سے
سب شور مچاتے ہیں جب تک لہو تازا ہے
یہ راکھ مکانوں کی ضائع نہ کرو ساغرؔ
یہ اہل سیاست کے رخسار کا غازہ ہے
غزل
گلشن کو بہاروں نے اس طرح نوازا ہے
ساغرؔ اعظمی