ایسی نہیں ہے بات کہ قد اپنے گھٹ گئے
چادر کو اپنی دیکھ کے ہم خود سمٹ گئے
جب ہاتھ میں قلم تھا تو الفاظ ہی نہ تھے
اب لفظ مل گئے تو مرے ہاتھ کٹ گئے
صندل کا میں درخت نہیں تھا تو کس لیے
جتنے تھے غم کے ناگ مجھی سے لپٹ گئے
بیٹھے تھے جب تو سارے پرندے تھے ساتھ ساتھ
اڑتے ہی شاخ سے کئی سمتوں میں بٹ گئے
اب ہم کو شفقتوں کی گھنی چھاؤں کیا ملے
جتنے تھے سایہ دار شجر سارے کٹ گئے
ساغرؔ کسی کو دیکھ کے ہنسنا پڑا مجھے
دنیا سمجھ رہی ہے مرے دن پلٹ گئے
غزل
ایسی نہیں ہے بات کہ قد اپنے گھٹ گئے
ساغرؔ اعظمی