پیاس صدیوں کی ہے لمحوں میں بجھانا چاہے
اک زمانہ تری آنکھوں میں سمانا چاہے
ایسی لہروں میں ندی پار کی حسرت کس کو
اب تو جو آئے یہاں ڈوب ہی جانا چاہے
آج بکنے سر بازار میں خود آیا ہوں
کیوں مجھے کوئی خریدار بنانا چاہے
مجھ میں اور تجھ میں ہے یہ فرق تو اب بھی قائم
تو مجھے چاہے مگر تجھ کو زمانہ چاہے
کبھی اظہار محبت کبھی شکوؤں کے لیے
تجھ سے ملنے کا کوئی روز بہانا چاہے
جس کو چھونے سے مرا جسم سلگ اٹھا تھا
دل پھر اک بار اسی چھاؤں میں جانا چاہے
اس کے جذبات سے یوں کھیل رہا ہوں ساغرؔ
جیسے پانی میں کوئی آگ لگانا چاہے
غزل
پیاس صدیوں کی ہے لمحوں میں بجھانا چاہے
ساغرؔ اعظمی