جو کوئی در پہ ترے بیٹھے ہیں
دونوں عالم سے پھرے بیٹھے ہیں
جوں نم اشک تو کس سے ہے خفا
یاں کوئی پل میں گرے بیٹھے ہیں
درد دل کیوں کہ کہوں میں اس سے
ہر طرف لوگ گھرے بیٹھے ہیں
کوئی آیا ہی نہ بھولا ہم تو
کب سے رستے کے سرے بیٹھے ہیں
گرم کر دے تو ٹک آغوش میں آ
مارے جاڑے کے ٹھرے بیٹھے ہیں
قلزم عشق کا الٹا ہے طریق
یاں جو ڈوبے سو ترے بیٹھے ہیں
کس کو دوں دوش تری مجلس میں
اپنے مشفق ہی نرے بیٹھے ہیں
ہم تو قائمؔ نہ ٹھہرتے یک دم
لیک یاں دل کے گھرے بیٹھے ہیں
غزل
جو کوئی در پہ ترے بیٹھے ہیں
قائم چاندپوری