واشد کی دل کے اور کوئی راہ ہی نہیں
جز یہ کہ آہ کیجئے سو آہ ہی نہیں
تکلیف بزم اہل جہاں تاکجا کہ دل
مطلق میں واں کے رنگ سے آگاہ ہی نہیں
آ اے اثرؔ ملازم سرکار گریہ ہو
یاں جز گہر خزانے میں تنخواہ ہی نہیں
لازم تھے ہم بکارت دنیا کو اے فلک
تیں دی یہ دخت ان کو جنہیں باہ ہی نہیں
قائمؔ متاع دل کو عبث کیوں کرے ہے خوار
اس جنس کی جہاں میں کوئی چاہ ہی نہیں
غزل
واشد کی دل کے اور کوئی راہ ہی نہیں
قائم چاندپوری