چلو نوحؔ تم کو دکھا لائیں تم نے
نہ مے خانہ دیکھا نہ بت خانہ دیکھا
نوح ناروی
چاہئے تھی شمع اس تاریک گھر کے واسطے
خانۂ دل میں چراغ عشق روشن ہو گیا
نوح ناروی
بھری محفل میں ان کو چھیڑنے کی کیا ضرورت تھی
جناب نوح تم سا بھی نہ کوئی بے ادب ہوگا
نوح ناروی
بے وجہ محبت سے نہیں بول رہے ہیں
وہ باتوں ہی باتوں میں مجھے کھول رہے ہیں
نوح ناروی
برسوں رہے ہیں آپ ہماری نگاہ میں
یہ کیا کہا کہ ہم تمہیں پہچانتے نہیں
نوح ناروی
برہمن اس کے ہیں شیخ اس کے ہیں راہب اس کے
دیر اس کا حرم اس کا ہے کلیسا اس کا
نوح ناروی
برباد وفا ہو کر مسجود جہاں دل ہو
آدھے میں بنے مسجد آدھے میں صنم خانہ
نوح ناروی
اسیران قفس کو واسطہ کیا ان جھمیلوں سے
چمن میں کب خزاں آئی چمن میں کب بہار آئی
نوح ناروی
اشکوں کے ٹپکنے پر تصدیق ہوئی اس کی
بے شک وہ نہیں اٹھتے آنکھوں سے جو گرتے ہیں
نوح ناروی