جانے کس امید پہ چھوڑ آئے تھے گھر بار لوگ
نفرتوں کی شام یاد آئے پرانے یار لوگ
نعمان شوق
اتنی تعظیم ہوئی شہر میں عریانی کی
رات آنکھوں نے بھی جی بھر کے بدن خوانی کی
نعمان شوق
عشق میں سچا تھا وہ میری طرح
بے وفا تو آزمانے سے ہوا
نعمان شوق
آئنے کا سامنا اچھا نہیں ہے بار بار
ایک دن اپنی ہی آنکھوں میں کھٹک سکتا ہوں میں
نعمان شوق
عشق کا مطلب کسے معلوم تھا
جن دنوں آئے تھے ہم دل ہار کے
نعمان شوق
اس بار انتظام تو سردی کا ہو گیا
کیا حال پیڑ کٹتے ہی بستی کا ہو گیا
نعمان شوق
ہر متقی کو اس سے سبق لینا چاہئے
جنت کی چاہ نے جسے شداد کر دیا
نعمان شوق
ہمیں برا نہیں لگتا سفید کاغذ بھی
یہ تتلیاں تو تمہارے لئے بناتے ہیں
نعمان شوق
ہم کو ڈرا کر، آپ کو خیرات بانٹ کر
اک شخص راتوں رات جہانگیر ہو گیا
نعمان شوق