رو رو کے لوگ کہتے تھے جاتی رہے گی آنکھ
ایسا نہیں ہوا، مری بینائی بڑھ گئی
نعمان شوق
مرا کچھ راستے میں کھو گیا ہے
اچانک چلتے چلتے رک گیا ہوں
نعمان شوق
محبت والے ہیں کتنے زمیں پر
اکیلا چاند ہی بے نور ہے کیا
نعمان شوق
مجھ کو بھی پہلے پہل اچھے لگے تھے یہ گلاب
ٹہنیاں جھکتی ہوئیں اور تتلیاں اڑتی ہوئیں
نعمان شوق
نام ہی لے لے تمہارا کوئی
دونوں ہاتھوں سے لٹاؤں خود کو
نعمان شوق
نام سے اس کے پکاروں خود کو
آج حیران ہی کر دوں خود کو
نعمان شوق
پاؤں کے نیچے سے پہلے کھینچ لی ساری زمیں
پیار سے پھر نام میرا شاہ عالم رکھ دیا
نعمان شوق
پہنتے خاک ہیں خاک اوڑھتے بچھاتے ہیں
ہماری رائے بھی لی جائے خوش لباسی پر
نعمان شوق
پھر اس مذاق کو جمہوریت کا نام دیا
ہمیں ڈرانے لگے وہ ہماری طاقت سے
نعمان شوق