EN हिंदी
اس بار انتظام تو سردی کا ہو گیا | شیح شیری
is bar intizam to sardi ka ho gaya

غزل

اس بار انتظام تو سردی کا ہو گیا

نعمان شوق

;

اس بار انتظام تو سردی کا ہو گیا
کیا حال پیڑ کٹتے ہی بستی کا ہو گیا

اس بار سنگسار ہوئے بے گناہ لوگ
اک راستہ بدن کی بحالی کا ہو گیا

جزیہ وصول کیجئے یا شہر اجاڑیے
اب تو خدا بھی آپ کی مرضی کا ہو گیا

مٹی کے اک دیے کی مجھے بد دعا لگی
لو دے کے ایک بار میں مٹی کا ہو گیا

جلتے مکان دیکھ کے لوگ اتنے خوش ہوئے
پل میں سماں ہی جیسے دوالی کا ہو گیا

نکلا نہ میں بھی گھر سے سنی میں نے بھی وہ چیخ
کتنا بڑا علاقہ سپاہی کا ہو گیا