فقیر لوگ رہے اپنے اپنے حال میں مست
نہیں تو شہر کا نقشہ بدل چکا ہوتا
نعمان شوق
بدن نے کتنی بڑھا لی ہے سلطنت اپنی
بسے ہیں عشق و ہوس سب اسی علاقے میں
نعمان شوق
بڑے گھروں میں رہی ہے بہت زمانے تک
خوشی کا جی نہیں لگتا غریب خانے میں
نعمان شوق
اور مت دیکھیے اب عدل جہانگیر کے خواب
اور کچھ کیجئے زنجیر ہلانے کے سوا
نعمان شوق
اپنی آہٹ پہ چونکتا ہوں میں
کس کی دنیا میں آ گیا ہوں میں
نعمان شوق
ایسی ہی ایک شب میں کسی سے ملا تھا دل
بارش کے ساتھ ساتھ برستی ہے روشنی
نعمان شوق
اب اسے غرقاب کرنے کا ہنر بھی سیکھ لوں
اس شکارے کو اگر پھولوں سے ڈھک سکتا ہوں میں
نعمان شوق
آسمانوں سے زمیں کی طرف آتے ہوئے ہم
ایک مجمع کے لیے شعر سناتے ہوئے ہم
نعمان شوق
آپ کی سادہ دلی سے تنگ آ جاتا ہوں میں
میرے دل میں رہ چکے ہیں اس قدر ہشیار لوگ
نعمان شوق